Islahih_writer

لائبریری میں شامل

کھلے میں ہینڈ پمپ کےنیچے نہانے کاوہ زمانہ

گاؤں میں پہلے ندی اور تالاب سے پیاس بجھتی تھی ،اسی پانی سے اور بھی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں۔ یہ پانی کے قدرتی ذرائع تھے جو ہر گاؤں میں ایک دو ہی ہوتے تھے ۔ یہاں سے پانی بھر نے کےوقت کی قید تھی، رات میں گھپ اندھیر ا رہتا تھا ،چاندنی رات میں بھی کوئی ندی یا تالاب جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا ، دن ہی میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھااور بہت سنبھال سنبھال کر استعمال کیاجاتا تھا ۔
ترقی ہوئی ،کنویں کھودے جانے لگے جوہر محلے میں دوتین ہوتےتھے اور گاؤں میں درجنوں ہوتے تھے۔بتاتے ہیں کہ پہلے ضرورت کے پانی کا اہم ذریعہ کنویں تھے، اسی کےپانی سے لوگ نہاتے تھے، پیاس بجھاتے تھے، مویشیوں کو بھی پلاتے تھے، سنچائی کرتے تھے، کھانا بنانے میں بھی کنویں کا پانی استعمال ہوتا تھا۔ کنویں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سب کا ہوتا تھا، ایک محلے یا علاقے کے لوگ اسی سے پانی حاصل کرتے تھے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا، سب کنویں پر آتے تھے اور خوشی خوشی اپنی ضرورت کا پانی لے جاتے تھے۔ کچھ گھروں میں پانی بھرنے والے مزدور ہوتے تھے ، انہیں غلہ کی شکل میں سالانہ مزدور ی دی جاتی تھی ۔ یہ بھی ایک مخصوص وقت میں پانی بھر تے تھے۔ رات میں پانی بھرنے کیلئے کنویں کےآس پاس کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ بچوں کو کنویں میں گرنے سے بچانا ہوتا تھا، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی تھی ۔بڑے بوڑھے نظر رکھتے تھے۔ اپنے بچوں کو کنویں کے قریب نہ جانے کی تنبیہ کرتے تھے، طرح طرح سے سمجھاتے تھے، کچھ لوگ کنویں سے پانی نکالنے کے بعد اس پربڑا پتھر( پٹیا) رکھ دیتے تھے مگر بچے تو بچے ہوتے تھے ، باز نہیں آتے تھے ۔ سخت پہرے اور نگرانی کے باوجود ہر علاقے میں کنویں میں گرنے کا حادثہ ہوتا تھا اور اس طرح بچوں کی ایک بڑی تعدادکنویں میں گرکر جان گنوادیتی تھی ۔
اب اکثرگاؤں میں صرف کنویں کے نشانات باقی ہیں۔کچھ گاؤں میں چند کنویں اب بھی ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ ان کی صورت بدل گئی ہے۔ا کثر عام دنوں میں خشک رہتے ہیں، برسات میں پانی جمع ہوتا ہے، وہ بھی آلودہ...یہ پانی گدلا بھی نہیں ہوتا ہے، اس پانی کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ ایسے میں صاف شفاف پانی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے، کوڑا کرکٹ کاانبار ہوتا ہے، ان کی سطح پر پرانے چپل، خالی بوتل ، کاغذات اوربیگ وغیرہ تیرتے ہیں۔آبادی کے باہر کے کنویں کے گرد جھاڑ جھنکاڑہے، خودرو پودے ہیں،ان میں سے کچھ درخت بھی بن گئے ہیں یا بن رہے ہیں۔یہ سانپ بچھو کابسیرا بن گئے ہیں۔ کنویں کی سطح آب پر موٹی موٹی کائی ہے، اس کے پانی سے بدبو بھی آتی ہے۔آبادی کےدرمیان جو کنویں رہ گئے ہیں، ان میں سے کچھ کے چبوترے اب بھی محفوظ ہیں یا ان کی مرمت کردی گئی ہے، اُن پر لوگ بیٹھتے ہیں، محفل سجاتے ہیں، وہاں خاص خاص موقع پر پوجا پاٹ بھی ہوتی ہے جبکہ کنویں کو پٹیا سے ڈھک دیا گیا ہے۔اس کنویں کاپانی کیسا ہے ؟کسی کو پتہ نہیں  ہے۔ کنویں کے بعد ہینڈ پمپ اور ٹیوب ویل کا دور آیا ۔ ذرا تصور کیجئے کہ جب پہلی بار ہینڈ پمپ میں پانی آیا ہوگا تو اس پر گاؤں والوں نے کیساجشن منایا ہوگا ؟ان کی آنکھوں میں کتنی چمک رہی ہوگی؟ اُن کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ہوگا، پھولے نہ سمائے ہوں گے۔ظاہر ہے کہ ہینڈ پمپ لگنے کے بعد پانی کیلئے ایک قدم چلنا نہیں ہوتاتھا ، کوئی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی تھی ۔سب کے پاس اپنا اپنا ہینڈ پمپ تھا۔ ایک گھر کے باہر ہوتا تھا، ایک گھر کے اندر ۔ دن رات کی کوئی قید نہیں تھی، جب چاہو جتنا چاہوپانی بھرو ،خود پیو.. جانور وں کوپلاؤ، کھل کر نہاؤ ..کپڑادھلو..کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ راہگیر بھی اسی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے ، راہ چلتے کہیں بھی پیاس لگتی تھی، کسی بھی ہینڈپمپ کے نیچے بیٹھ جاتے تھے، دونوں ہتھیلیاں (اجوری)ملا تے تھے اور پیاس بجھا کرآگے بڑھ جاتے تھے ۔ گزشتہ دنوں ایک گاؤں میں بچوں کا  کرکٹ  ٹورنامنٹ تھا ، دوسرے گاؤں کی ٹیم آئی تھی ، کھیلنے کے بعد بچے پیاس بجھانے کیلئے ہینڈپمپ ڈھونڈنے لگے ، انہیں کامیابی نہیں ملی۔ ان بچوں نے کسی کے گھر سے پانی مانگ کر گلا تر کیا ۔ زیادہ نہیں یہی دس بارہ سال سے پوروانچل کے بہت  سے گاؤں میں اچانک پانی کی سطح نیچے جانے لگی ہے ، نتیجتاً ہینڈپمپ جواب دینے لگے ہیں ،اس طرح سمرسیبل( سبمرسیبل پمپ ) کا دور آگیا ۔اب اس کاکاروبار پھلنے پھولنے لگا ہے۔ لوگ سمبرسیبل کی بورنگ کرانے لگے ہیں ۔ سب کے دروازے اور گھرسے ایک ایک کرکے پرانے ہینڈ پمپ غائب ہونے لگے ہیں۔ اب باہر سرکاری ہینڈ پمپ ہی رہ گئے ہیں ، وہ بھی کہیں کہیں اوراکا دکا ...۔گھر کےباہر ہینڈپمپ تھے تو گھر کےمر د اسی کے پانی سے کھلے میں نہاتے تھے ۔ بڑ ے بوڑھے صرف نہاتے تھے جبکہ نوجوان اور بچےنہانے کے بہانے کھیلتے تھے۔ بہت دیر تک تازہ اور ٹھنڈا پانی اپنے سر پہ ڈالتے تھے ۔ چھٹی کے دن بچے ہینڈپمپ پر جمع ہوجاتے تھے،خاص طور پر گرمی میں۔ ( سردی میں نہانے کی ہمت کم ہی بچے کرتے تھے) سب ایک ساتھ نہا تے تھے، کوئی ہینڈپمپ چلا تاتھا ، کوئی بدھنی (بڑا لوٹا) میں پانی بھر تا تھا ، اس طرح باری باری بچے نہاتے تھے، گھنٹوں پانی میں رہتے تھے ۔ تھکتے نہیں تھے ، شور ہنگامہ کرتے تھے ، کچھ بچے شرارتاًبالٹی کا پانی ہی سرپہ ڈال لیتے تھے،اس جوش میں کبھی کبھی ہوش بھی کھوتے تھے ، کوئی پھسل کرگر تا تھا ، سربھی پھٹتاتھا ۔

   12
8 تبصرے

Zeba Islam

22-Nov-2021 06:18 PM

Punam verma

07-Sep-2021 09:30 AM

👏🏻👏🏻👌🏻👌🏻👌🏻

جواب دیں۔